کیا اللہ آپ سے پیار نہیں کرتا؟
کیا آپ کو کبھی محسوس ہوا ہے کہ اللہ آپ سے پیار نہیں کرتا۔ الف کی کسی قسط کا تبصرہ لکھتے ہوئے میں نے یہ لکھا تھا۔ پوسٹ کے بعد مجھ سے پوچھا گیا کہ ایسا کیا ہوا ہے جو انسان کو یا مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ اللہ مجھ سے پیار نہیں کرتا۔
ایسا کچھ خاص نہیں۔۔۔ الحمدللہ سب خیریت ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوائے میری نیند کے۔ہاں جی۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔۔میراتو تعارف ہی یہی ہے کہ مجھے نیند نہیں آتی اس لیے میں اپنے آپ کو کھوج رہی ہوں، اپنے اندر چھپی دوسری شخصیات کو باہر نکال رہی ہوں۔
اکثر میں رات بھر جاگتی ہوں۔ کبھی دو گھنٹوں کی نیند ہوتی ہے، کبھی چار گھنٹوں کی۔ ابھی حال ہی میں یہ خیال آیا کہ جاب چھوڑ دی جائے۔ صبح اٹھنے، آفس جانے سے چھٹکارہ حاصل ہو جائے گا۔ لیکن پھر گھر کیسے چلے گا؟
میں جانتی ہوں۔ رزق کا زمہ اللہ کا ہے۔ کسی نہ کسی وسیلہ سے دو وقت کی روٹی تو میسر ہو ہی جائے گی۔ اور پھر میں ہاتھ پر ہاتھ رکھی بیٹھی تو نہیں رہوں گی۔ اللہ مالک ہے۔ کچھ حل نکل آئے گا۔میری امی کا خیال تھوڑا مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پڑھائی کرتے وقت میں جاب کے لیے اتنی پریشانی ہوا کرتی تھی۔ اب اللہ نے اتنی اچھی جاب دی ہے۔ اتنے سالوں میں ماشاءاللہ کافی ترقی بھی ہوئی ہے۔ میں اس بات کا زیادہ ذکر نہیں کرتی وہ الگ بات ہے۔ بہرحال تو چھ ہندسوں والی ماہانہ تنخواہ سے زیرو پر آ جانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ لوگ جاب کے لیے جوتے گھستے ہیں۔ اور میں جاب چھوڑ کر ناشکری اور ناقدری کروں گی۔
امی کی بات بھی درست ہے۔اور یہاں سے شکر اور صبر والا خیال دل میں آیا۔ ہم یہ سب باتیں بچپن سے جانتے ہیں لیکن وقتاً فوقتاً دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کھانا کھاتے وقت میں نے اپنے بھائی سے پوچھا کہ صبر اور شکر میں کیا فرق ہے اور کس کو فوقیت حاصل ہے۔
سوال کافی احمقانہ تھا لیکن جواب ملا۔کہنے لگا کہ یہ اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ انسان حالت آزمائش میں ہے یا حالت سزا میں۔
لیجیے۔ ایک اور سوال آ کھڑا ہوا۔ کسی کو اگر یہ لگتا ہو کہ اس کے ساتھ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ یا اللہ اس سے ناراض ہے تو وہ کیسے پتہ کرے کہ یہ عزاب ہے یا آزمائش؟
گوگل کیا۔ ایک لمبا سا آرٹیکل پڑھا جس میں حدیث کی روشنی میں دونوں کا فرق سمجھایا گیا ہے۔ اور آخر میں ایک چھوٹا سا جملہ کچھ تھا کہ “اگر آپ بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور لوگوں سے اپنے اوپر بیتنے والی ہر مصیبت کی شکایت کرتے پھرتے ہیں تو وہ عذاب ہے کیوں کہ صابر پر عذاب نہیں ہوتا۔”
ہو سکتا ہے کہ لوگ اس بات سے متفق نہ ہوں۔ لیکن مجھے یہ بات سمجھ آ گئی۔
ذرا سی بات تھی دل کو مگر لگی ہے بہت۔
تو سارا مسئلہ آپ میں ہے کہ آپ اپنے حال کو مصیبت سمجھتے ہیں یا نارمل زندگی۔ آپ خود کو مظلوم سمجھتے ہیں یا عاجزی سے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔ شکایت نہ کرتے ہوئے راضی بہ رضا رہنا ہی ہمارا شیوہ ہونا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ صابر ہونے کے لیے بھی صبر چاہیے۔ ابھی تو شروعات کی ہے۔ اللہ مالک ہے۔
میں اس سے دنیا کی چیزیں مانگتی ہوں، وہ تب بھی میری دعا سنتا ہے۔ اب صبر اور رحم مانگ رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ جو میں چاہتی ہوں، وہ ملے گا ضرور۔ انشاءاللہ۔ بس وقت لگے گا۔
دعاؤں میں یاد رکھئے۔ اسلام علیکم۔
You must log in to post a comment.