نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارایہ شعر ہم کسی صنعت کی تعریف میں لکھتے تھے، شاید صنعت تکرار؟ صنعت کا نام میرے شاعر بھائی سے پوچھ کر بتاؤں گی۔ تو بس یہ تعریف لکھنے کی حد تک ہی محدود تھا۔ نہ کسی نے ہمیں اس شعر کے معنی بتانے کی کوشش کی اور نہ ہم نے جاننے کی کوشش کی ۔ویسے بھی امتحانات میں اچھے نمبر لانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ہر سوال کا صحیح صحیح جواب لکھ دیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ کو اس جواب کے معنی بھی معلوم ہوں۔
اور کسی نے ہمیں اس کے معنی کیا ہی بتانے تھے۔ ہمارے اساتذہ میں سے اکثر کو خود غزلوں اور نظموں کی تشریحات نہیں آتی ہوتی تھیں۔ اس وقت انہیں رٹے رٹائے جوابات ہمیں لکھواتے دیکھ میں سوچتی تھی کہ انہیں ٹیچر کس نے بنا دیا ہے۔ اب میں یہ سوچتی ہوں کہ شاعری سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔یہ کیڑا کسی کسی کے ہی دماغ میں ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ناThere are only 10 kind of people in the world those who understand binary and those who don’t.
شاعری کا بھی بس ایسا ہی ہے۔ جس کسی کے دماغ میں خناس ہوتا ہے، وہی شاعری کو سمجھ سکتا ہے۔ اس شعر میں نفس امارہ کا مطلب کبھی نہ سمجھ آیا۔
ابھی شاید پچھلے سال کی بات ہے کہ کسی اسکالر کے بیان کو سنتے وقت مجھے اردو کے اس شعر کی تشریح سمجھ میں آئی۔
نفس تین طرح کے ہوتے ہیں۔
نفس امارہ
نفس لوامہ
اور
نفس مطمئنہیا یوں کہہ لیں کہ نفس انسانی کی تین حالتیں ہیں۔
1.
نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا نفس۔ (یوسف : 53)
وَمَا أُبَرِّىءُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
نفس امارہ : جو انسان کو گناہوں پر آمادہ کرتا ہے ۔2.
نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا نفس۔ (القیامہ : 2)وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ
نفس لوامہ : جو انسان کو گناہوں پر ملامت کرتا ہے کہ یہ کام بہت برا تھا تم نے کیوں کیا؟3.
نفس مطمئنہ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر : 27)
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ
نفس مطمئنہ : جو انسان کو اطاعت الہی اور اللہ کے ذکر فکر میں مطمئن رکھتا ہے اور خواہشات کی کشمش اور گناہوں کے خطراب سے دور رکھتا ہےبعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ نفس کی الگ الگ تین قسمیں نہیں بلک ایک ہی نفس کی مختلف کیفیات وصفات ہیں۔ چنانچہ نفس امارہ ہر نفس کی ذاتی صفت ہے جو شہوت وغضب کے وقت عقل وشرع کے حکم پر غلبہ کرتا ہے۔ لوامہ ہونا بھی ہر نفس کی صفت ہے جس وقت وہ عقل وشرع کی طرف توجہ کرتا ہے اور خیر وشر کے درمیان فرق و پہچان کرتا ہے۔ اور مطمئنہ بھی ہر نفس کی صفت ہے مگر یہ صفت اور کیفیت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ذکر کا نور بدن کے تمام اجزاء پر غالب ہوجاتا ہے ۔
قرآن کریم میں نفس کا لفظ تین مختلف معنوں میں آیا ہے، ایک تو یہاں نفس امارہ کے معنوں میں یعنی وہ نفس جو برائی پر ابھارتا ہے۔ اس کو حیوانیت کا نام دیتے ہیں کہ انسان کے اندر نفس امارہ ہے جو انسان کو جانوروں والی حیوانیت اور سفاکیت پر ابھارتا ہے۔اور اس حیوانیت پر قابو پانا ہی ہمارا کام ہے۔
لہذا اس شعر میں شاید یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ اگر آپ نے کوئی اژدہا یا نر شیر یا نہنگ مارا تو اس میں کوئی بہادری کی بات نہیں ،اصل بہادری یہ ہے کہ آپ نے اپنے نفس کو کنٹرول کیا قابو کیا۔
تو کیا آپ بہادر ہیں؟
Weekend hai, thodi bey-tuki banti hai.
Regards,
Shabana