اسپتال سے نکلتے ہی اس نے ایک لمبی سانس بھری۔ ماسک کے پیچھے دن بھر قید رہی سانس جیسے اب جا کے اس کے پھینپھڑوں سے آزاد ہوئی ہو۔ دن بھر کے مریض، ان کے رشتے دار، انجیکشن، دوائیں، فائلیں — سب اس کے ذہن میں ہجوم کی طرح گونج رہے تھے۔
سڑک پر شام کے معمول کی افراتفری تھی۔۔۔
دکانوں کے شٹر آدھے کھلے، آدھے بند۔۔۔
مصالحوں کی خوشبو کہیں تیز، کہیں باسی دھوئیں میں گھل رہی تھی۔۔۔
قیمہ بھرے سموسوں کی مہک پیٹ میں ایک عجیب سا ہیجان برپا کر رہی تھی۔۔۔
سبزی والے کے پاس ہری مرچوں کی تیز ی گویا آنکھوں میں چبھ رہی تھی، اور قریبی چائے کے ڈھابے سے ابلتی چائے کی بھاپ۔۔۔
وہ جیب سے پرس ٹٹولتی، رکشے والوں کے شور سنتی، سوچ رہی تھی کہ ابھی گھر پہنچ کر گھریلو کاموں کی ایک لمبی فہرست اس کی منتظر ہے۔ کھانا بنانا، کپڑے تہہ کرنا، برتن سمیٹنا ، چھوٹی چھوٹی صفائیاں۔ اس کے باوجود دل کہیں اور اٹکا تھا۔ وہ، جو پچھلے دنوں سے بدلا بدلا لگ رہا تھا۔
اس کے بارے میں سوچتے ہی اس کے دل میں ایک اور الجھن بڑھ گئی۔ وہ آج کل عجیب برتاؤ کر رہا تھا۔ خاموش، الگ تھلگ، جیسے کوئی راز چھپا رہا ہو، جیسے کوئی فاصلہ رکھ رہا ہو۔ بات کرتے ہوئے آنکھیں چرا لینا، کھانے کے وقت کا سناٹا، اور وہ دیر رات تک جاگنا۔ یہ سب معمولی باتیں نہیں تھیں۔
گھر کا دروازہ کھولتے ہی اسے ایک عجیب سی سنجیدگی نے گھیر لیا۔ نہ روشنی، نہ کوئی آہٹ۔ اندر قدم رکھتے ہی ماحول ایسا لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔
وہ آہستہ آہستہ اندر بڑھی۔ کمرے میں وہ اکیلا بیٹھا تھا۔ کرسی کی پشت سے جھکا ہوا بدن، سامنے میز پر ایک گلاس۔ اور اس میں بھرا ہوا مائع—سرخ، گہرا، روشنی میں چمکتا ہوا۔ گلاس کے ساتھ ہی ایک بوتل رکھی تھی، آدھی بھری، جیسے ابھی ابھی کھولی گئی ہو۔وہ گلاس کو ہاتھ میں اٹھا کر اسے ہولے ہولے دائروی حرکت دینے لگا۔ برف کے ٹکڑوں کی کھنک صاف سنائی دے رہی تھی– کمرے کی خاموشی کو توڑنے والی واحد آواز۔۔۔
اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ آنکھوں میں ایک پل کے لیے دھند چھا گئی۔ پیروں کے نیچے سے جیسے زمین کھسک گئی۔
آہ—یہ کیسا منظر۔ اس کے بدلے ہوئی رویہ کی حقیقت آج اس کے سامنے تھی۔ اور وہ سوچ رہی تھی۔
—اس نے ایک پل کو ساکت ہو کے دیکھا، پھر زیرِ لب بڑبڑائی
“روح افزا آن دا راکس؟ واقعی؟”
Regards,
Shabana