
حبس قسط21 تحریری جائزہ اور اپ ڈیٹ
یہ قسط ساری کی ساری ایک ہی مرکزی خیال کے گرد گھومی ہے: بہت بڑی غلط فہمی۔
اگرچہ باسط نے عائشہ کو طلاق دینے کا اپنا فیصلہ بدل دیا ہے، عائشہ اب سوچتی ہے کہ باسط اسے چھوڑ رہا ہے۔ وہ روتی ہے اور اتنا روتی ہے کہ مجھے اکتاہٹ ہونے لگی۔ بھئی، صرف ایک غلط فہمی کی وجہ سے اتنا مت روئیں، کسی ایسی چیز کو بنیاد بنائیں جو آپ نے سنی ہو، جو باسط نے واضح الفاظ میں کہی ہو۔ اگر کہانی کو آگے بڑھانے کا دار و مدار صرف اور صرف غلط فہمی پر ہے، تو مجھے بالکل پسند نہیں آتا۔
قدسیہ اس قسط میں حسب معمول بہت تپانے والی باتیں کرتی ہیں۔ وہ اس بارے میں رونا ڈالتی رہیں کہ آخر عائشہ باسط کا خیال کیوں رکھ رہی ہے؟ بظاہر وہ عائشہ کے ہسپتال میں ہونے اور باسط پر وقت اور توانائی صرف کرنے سے ناخوش ہے۔ ایک سین میں، میں نے ایسا محسوس کیا کہ پھپھو نے بھی قدسیہ کی باتیں سن کر مایوسی سے سر ہلایاہو۔ قدسیہ اتنی ہٹ دھرم کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کی سوچ کچھ ایسی ہے کہ میری بیٹیاں جو بھی کریں، میں نے ہمیشہ مخالفت ہی کرنی ہے۔ اف۔۔۔
جہاں تک باسط کا تعلق ہے، مجھے لگتا ہے کہ اس قسط میں اس کے ساتھ بہت زیدتی ہوئی۔ عائشہ نے اسے کبھی بات کرنے کا موقع نہیں دیا، اسے خود کو سمجھانے کا موقع نہیں ملا۔ عائشہ گھر پہنچی تو باسط کی بات سننے کا انتظار نہیں کیا۔ جب باسط نے فون کیا تو وہ فون کاٹ دیتی تھی کیونکہ وہ رونے دھونے میں مصروف تھی۔ بےچارہ باسط۔۔۔ اپنی بات کہہ ہی نہیں پایا۔اور اگر اتنا رائتہ کم تھا تو مزید کانفلکٹ کے لیے سوہا واپس آ جاتی ہے۔ جی ہاں، پاسط کے گھر سے واپسی پر جیسے عائشہ سوہا سے ملتی ہے۔ 19ویں قسط کے بعد، افتتاحی کریڈٹ دیکھتے ہوئے، میں نے سوچا کہ سوہا پہلی چند اقساط کے بعد کہاں غائب ہو گئی۔ اب، وہ واپس آ گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس جوڑے کے درمیان آخری تنازعہ ہو گی۔
تبصرہ
میں اس قسط کو دیکھتے ہوئے اتنا روئی ہوں، سوچ ہے آپ کی۔ اس لیے نہیں کہ عائشہ بے ساختہ رو رہی تھی، اس لیے کہ باسط اپنے گھر میں بالکل اکیلا تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس کا مجھ پر عائشہ کی پریشانی سے زیادہ اثر کیوں ہوا؟
کیونکہ میں فی الحال اکیلی رہ رہی ہوں، اکیلی۔
آخری بار جب میں اکیلے رہی ہوں وہ شاید 2014 میں ہوا ہوگا۔ اس کے بعد، میرے خاندان میں سے کوئی ہمیشہ میرے ساتھ پونے میں رہا۔ کورونا کے دوران بھی میرا بھائی اور بہن میرے ساتھ تھے۔ کورونا کا عرصہ جتنا بھی ڈراؤنا تھا، میرے پاس ہمیشہ بات کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ہوتا تھا، کوئی نہ کوئی ہوتا تھا میری سپورٹ کے لیے، حالانکہ میرا بھائِ اور بہن دونوں وہ بہت “قابل اعتماد” لوگ نہیں تھے، بہت ہی لا ابالی ہیں، لیکن پھر بھی۔
لیکن اب، میں بالکل اکیلی ہوں۔ میں صبح اٹھتی ہوں، اپنے لیپ ٹاپ کو آفس VPN سے کنیکٹ کرتی ہوں ہوں اور کام کرنا شروع کردیتی ہوں، اور میں انتھک محنت کرتی ہوں جب تک کہ میری پیٹھ اکڑ کر مزید بیٹھنے سے انکار نہ کر دے۔ باسط کو اس کے بڑے سے کمرے اور اس سے بھی بڑے گھر میں اکیلا دیکھ کر، مجھے یہی یاد آتا رہا کہ اکیلا رہنا کتنا خوفناک محسوس ہوتا ہے۔
میں بس کہہ رہی ہوں کہ۔۔۔
فیروز خان نے اپنی بہترین پرفارمنس دی۔ اس کا نرم مزاج باسط مجھت بہت پسند آتا ہے۔ دوسری طرف اشنا شاہ نے مجھے زیادہ متاثر نہیں کیا۔ وہ بہت روتی ہے، اور یہ سین اتنی بار دہرایا جاتا ہے کہ اللہ کی پانہ۔۔۔ چاہے وہ روتی ہوئی کتنی ہی خوبصورت نظر آتی ہو، اتنا رونا دیکھا نہیں جاتا
ٹھیک ہے، پھر ملتے ہیں.
~
Until next review, please check out my books on Amazon.
Shabana Mukhtar