If you’re interested in getting a free pdf to review, please email me, or IM me on Goodreads or Facebook.
Synopsis:
مناف، احید اور عاصمہ تین ماہ قبل ہی ایک دوسرے سے ملے تھے،جب وہ شیفیلڈ شارٹ ٹرم اسائنمنٹ پر آئے تھے۔ بہت کم وقت میں ان کی دوستی بہت گہری ہوگئی تھی۔
ایک چھوٹی سی کہانی اس دن کی جب ان میں سے ایک کا شیفیلڈ میں آخری دن تھا۔ دوستانہ چھیڑچھاڑ تھوڑی زیادہ ہی آگے بڑھ گئی تو کیا ہوا؟
کچھ لوگوں کو مذاق کرنےاور یوں ہی چڑھانے کی عادت ہوتی ہے۔ اس کے لئے وہ مسلسل کسی ٹارگٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ خواس اس سے دو دوسروں کی دل آزاری ہی کیوں نہ ہو۔ یہ دوستانہ چھیڑ چھاڑ اگر بڑھ جائے تو ناقابلِ تلافی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ رشتہ ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔
For more books, please visit the author page.
Preview:
الوداعی تحفہ
“ہاں، پانچ منٹ میں آئی۔”
اس نے کہا اور فون رکھ دیا۔ وہ تقریباً تیار تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اسے گھر سے نکلتے ہی پانچ منٹ سے زائد وقت لگے گا۔ کجا کہ ، صرف پانچ منٹ میں وہ حسبِ وعدہ پہنچ جائے۔ تاہم، اس نے یہ مشکل طریقے سے سیکھا تھا کہ دیر سے جانا فیشن گردانا جاتا ہے۔
اس نے آئینے میں اپنے عکس کو ستائش کی نظروں سے دیکھا۔ وہ خود کو خوبصورت اور دلکش لگتی تھی۔ اس کے دوست اس پر ہنستے تھے۔
“تم کس طرح اپنے آپ کو دلکش لگ سکتی ہو؟” وہ پوچھتے۔
“ٹھیک ہےنا، خوبصورتی دیکھنے والوں کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ میں اپنے آپ کو خوبصورت لگتی ہوں۔ “
” یہ نہیں ہو سکتا۔ آپ اپنے آپ کو ویسے نہیں دیکھ سکتے ، جیسے دوسرے دیکھتے ہیں۔ “وہ تردید کرتے۔
“شاید میں دیکھ سکتی ہوں۔”
لیکن یہ بحث کبھی اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی۔اب اس نے اپنی تعریف خود تک محدود رکھنا سیکھ لیا تھا ۔ جیسے کہ اس نے ابھی کیا۔ اس نے ایک خاکی رنگ کی کاٹن کی شرٹ، ایک میرون کلر کا پل اوور اور سیاہ ڈینم پہناتھا۔ پل اوور اس کے جسم کے نشیب و فراز کو نمایاں کر رہا تھا۔ ڈینم Levi کی سلم فٹ رینج سے تھا اور اس کی فگر کو مزید اجاگر کر رہا تھا۔
“ٹھیک ہے۔ اب چلنا چاہیے۔”
خود سے کہہ کر اس نے چابیاں، والٹ، اور فون کو ایک چھوٹے سے بیگ میں ڈالا، ایک بار پھر آئینہ میں خود کو چیک کیا۔ پھر جوتے پہن کر باہر نکل گئی اور دروازہ لاک کر دیا۔ کاریڈور سے گزرتے ہوئے وہ دیواروں، روشنیوں، دوسرے اپارٹمنٹس کے بند دروازوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ ‘مزید کچھ گھنٹے’ اس سوچ کے ساتھ ہی افسردگی کی لہر نے اس کے وجود کا احاطہ کر لیا۔
اس نے چار سیڑھیاں پھلانگیں اور بھاگ کر عمارت سے باہر نکلی۔ ‘منڈیل ہاؤس، شیفیلڈ’ اب اس کا ایڈریس نہیں ہوگا۔ عمارت بیلی سٹریٹ پر واقع تھی۔ دائیں ہاتھ پر ایک سو میٹر سے بھی کم فاصلے کے بعد، بیلی اسٹریٹ براڈ لین میں ضم ہوگئی۔ سڑک پار کرنے سے پہلے، اس نے اپنی رفتار حسبِ معمول دھیمی کر دی۔ اسے ہمیشہ تجسس ہوتا تھا کہ اس سڑک کے بائیں طرف کیا تھا۔ تین ماہ کے قیام میں، اسے کبھی بھی شہر کے اس سائیڈ جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔
اس نے گہرا سانس لیا اور دائیں طرف مڑ گئی۔ یہ وہ راستہ تھا جس پر وہ بہت کثرت سے چلی تھی۔ اس نے سڑک کو بے فکری سے پار کر لیا، جو کہ اس کا معمول تھا کہ سڑکیں عموماً خالی ہوتی تھیں۔ ہمیشہ کی طرح، یہ خیال پھر سے ستانے لگا کہ واپس جاکر وہ اتنی بے فکری سے سڑک پار کر پائے گی؟ وہ ہمیشہ دوسرے پیدل چلنے والوں کے کے ساتھ شامل ہو کر سڑک پار کرنے کا انتظار کرتی تھی۔ سڑکوں پر بہت زیادہ بھیڑ ہوتی تھی اور ڈرائیور حضرات ٹریفک کے قوقوانیکے خلاف ورزی کرںا اپنا حق جانتے تھے۔
دھیمی رفتار سے جاگنگ کرتے ہوئے وہ سڑک کے اس کنارے آکر رکی، جہاں براڈ لین دو حصوں میں تقسیم ہو کر ٹینٹ سٹریٹ بن جاتی تھی۔ چند سو میٹر کی جاگنگ نے اسے تھکایا نہیں تھا۔ اس پر اچانک ہی ناسٹلجیا کا حملہ ہوا تھا۔ اتنے عرصے سے، وہ اپنے اپارٹمنٹ سے باہر صرف دو وجہ سے نکلتی تھی۔ آفس جانے کے لئے؛ یا میٹیس، وہ عمارت جہاں اس کے باقی دوست رہتے تھے، اور اب تقریباً سبھی ساتھیوں کی واپسی کے بعد بقیہ دو لوگ ایک دوسرے چھوٹے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوئے تھے۔ جن سے ملنے کے لئے وہ جا رہی تھی۔ وہ میٹیس کے سامنے کھڑی، تیرھویں منزل پر واقع اپارٹمنٹ میں گزارے جانے والے تمام اچھے وقت کو یاد کر رہی تھی۔
Word Count: 3800
Read time: 20 minutes
If you’re interested in getting a free pdf to review, please email me, or IM me on Goodreads or Facebook.
Shabana Mukhtar