Kaala Doriya Urdu | Episode 4

تعارف

صائمہ اکرم چوہدری اور دانش نواز – مصنف اور ہدایت کار کی جوڑی جنہوں نے ہمیں چپکے چپکے (مجھے یہ کافی پسند آیا) اور ہم تم (یہ ہٹ اینڈ مس تھی) جیسے جواہرات دیے۔ یہ جوڑی اب ہمارے لیے ایک اور رومانوی کامیڈی کالا ڈوریا لے کر آئی ہے۔

کالا ڈوریا دو خاندانوں کی کہانی ہے جو ایک دوسرے سے سخت نفرت کرتے ہیں اور چہرہ دیکھنے کے بھی روادار نہیں۔ لڑکا اور لڑکی خاص طور پر ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اصل کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ ایک دوجے کی محبت میں گرفتار جاتے ہیں۔ کیا وہ خاندان کی طرف سے اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے قابل ہو جائیں گے یا وہ ایک دوسرے کا ساتھ پانے کے لئے کوشش کریں گے؟ معلوم کرنے کے لیے کالا ڈوریا ڈرامہ دیکھیں۔

ڈرامہ کالا ڈوریا قسط 4 کا تحریری جائزہ

اس قسط میں ماہ نور اور اسفی نے ایک دوسرے پر بہت سارے پرینک کیے، اور اس میں سے کچھ مجھے پسند آئے، کچھ نہیں۔
ماہ نور نے اسفی کی موٹر سائیکل کو لاک کر دیا اور جواب میں اسفی نے ماہ نور کی گاڑی کے تمام ٹائر نکال دیئے۔ مجھے ان دونوں میں سے کوئی بھی پسند نہیں آیا، سوائے اس کے کہ چھٹکی ہرزرارت کرنے کے بعد بالکل معصومیت سے کہہ دیتی ہے کہ “میں نے بالکل نہیں کیا۔”
بھانڈا پھوڑنا تو کوئی بچوں سے سیکھے۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ محظوظ کیا وہ تھی گوہر اور اسفی کی ٹریلر پررکھی موٹر سائیکل کی سواری ۔ گوہر یوں کر رہا تھا گیوا وہ کوئی ایکٹر یا بڑا سیاست دان ہے جو ریلی پر ہے اور ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں سے خراج تحسین وصول کر رہا ہو۔یہ کافی مزاحیہ تھا۔

یہ قسط صرف تفریحی نہیں تھی۔ اس میں کچھ جذباتی سین بھی تھے۔ شجاع اپنے نقصان کے بارے میں فکر مند ہے (1 کروڑ کا نقصان کم نہیں ہوتا)، منیر اس کے بارے میں سن کر خوش نہیں ہیں۔ ماہ نور بھی اس نقصان کے بارے میں فکر مند ہے، لیکن اس کی زبان اب بھی بالکل بکواس کرنے سے نہیں رکتی ہے۔ وہ پروجیکٹ کے اخراجات میں سے اپنا حصہ ادا کرنے کے لیے بھی پیسوں کا بندوبست نہیں کر سکتی۔ اور جب ندا نے اس کی طرف سے اسفی کو پیسے دے دیے تو اس نے اتنے برے طریقے سے بات کی، اف۔ میری ایسی بہن ہوتی تو میں رکھ کے دو تھپڑ لگا دیتی۔ کتنی زہریلی زبان ہے اس کی، استغفراللہ! مجھے ماہ نور بالکل پسند نہیں ہے۔

تبسم بیگم اور اختیاار احمد کی آپس کی باتیں تھوڑی رومانوی ہیں، سویٹ بھی۔۔ نیز، قرائن کہتے ہیں کہ ککو ماموں اب بھی ، منگنی ٹوٹنے کے پانچ سال بعد بھی بٹو کے ساتھ گوڈے گوڈے عشق میں مبتلا ہیں۔ لہٰذا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی…

علی سفینہ کو اپنے پنجابی اوتار میں دیکھنے کا بے صبری سے انتظار ہے۔ تنو پنجابی ہے اس لیے کوکو کو بھی پنجابی بولنا چاہیے۔ علی سفینہ ویسے بھی کسی بھی کردار میں ہوں، چھا جاتے ہیں۔

اب ملتے ہیں اگلے ہفتے۔۔۔

اوور اینڈ آؤٹ۔

~~~

Until we meet again, check out my books on Amazon. You can subscribe for Kindle Unlimited for free for the first month, just saying 🙂
Shabana Mukhtar